Friday, September 26, 2014

نفسانی خواہشات سے نجات کے ذرائع = تألیف ، امام ابن القیم رحمہ اللہ

0 comments
نفسانی خواہشات سے نجات کے ذرائع = تألیف ، امام ابن القیم رحمہ اللہ
نفسانی خواہشات کی پیروی دنیا وآخرت کی بہت ساری بلاؤں کا سبب ہے اور اس کی مخالفت بہت ساری بھلائیوں کا ضامن۔ ایسے لوگ جو نفسانی خواہشات کے جال میں گرفتار ہوجاتے ہیں اس سے آزادی بڑی مشکل ہوتی ہے لیکن اللہ کی توفیق پھر بندہ کی ہمت وعزیمت سے ہرکام آسان ہوجاتا ہے۔علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کے افادات علمیہ میں سے  ایک کاوش خواہشات کے دام فریب میں گرفتار لوگوںکے لئے علامہ کا نام لے لینا ہی کسی تحریر کی قیمت وافادیت بتلانے کے لئے کافی ہے۔

ترجمہ 

عبدالہادی عبد الخالق مدنی

نفسانی خواہشات سے نجات کیسے؟
خواہش کا مفہوم:
            اپنی طبیعت اور مزاج کے موافق کسی چیزکی طرف میلان کا نام خواہش ہے۔ انسانی بقا کے پیش نظر انسان کے اندر اس میلان اورخواہش کی تخلیق کی گئی ہے۔ کیونکہ اگر انسان کے اندر کھانے پینے اور نکاح کرنے کامیلان نہ ہو تو کھانے پینے اور نکاح سے رک جانے کی وجہ سے ہلاک ہوجائے۔
            خواہش انسان کو اپنا مقصد ومراد حاصل کرنے پر آمادہ کرتی ہے جیسا کہ غصہ وغضب انسان سے اذیت رساں چیزوں کو دفع کرتا ہےلہذا خواہش نہ ہی مطلقاً قابل مذمت ہے اور نہ ہی مطلقاً قابل تعریف۔ جیسا کہ غضب ہے کہ نہ وہ مطلقاً مذموم ہے اور نہ ہی مطلقاً محمود۔بلکہ خواہش یا غضب دونوں کیبرائی میں قدرے تفصیل ہے۔ وقت، حالات اور مواقع کے لحاظ سے کبھی یہ بہتر ہوتے ہیں اور کبھی بدتر۔
خواہش کی مذمت کیوں؟
            چونکہ بیشتر خواہشات کے پیچھے چلنےوالے، شہوات کا اتباع کرنے والے، غضب پرست لوگ نفع بخش حد پر نہیں رکتے، اس لئےعمومی غلبۂ ضرر کو دیکھتے ہوئے خواہش، شہوت اور غضب کی مذمت مطلقاً کردی جاتی ہےکیونکہ بہت کم ایسے لوگ ہیں جو ان قوتوں میں عدل کرسکتے ہوں اور حدود پر ٹھہرجاتےہوں۔ جیسا کہ مزاجوں میں ہوتا ہے کہ ہر طرح سے معتدل مزاج انسان کم یاب ہوتے ہیں،کسی نہ کسی خلط اور کیفیت کا غلبہ ضرور ہوتا ہے۔لہذا ایک ناصح کو شہوت وغضب کی قوتوں کو اعتدال پر لانے کی پوری کوشش کرنی چاہئے۔
             چونکہ خواہش میں اعتدال افراد عالم کی اکثریت کےلئے نہایت ہی دشوار ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جب جب خواہش کا ذکرکیا تو اس کی مذمت فرمائی اور حدیث نبوی میں بھی اس کی مذمت ہی آئی ہے البتہ جب کوئی قید اور تخصیص ہو تو معاملہ مختلف ہوجاتاہے جیسا کہ نبی صلىالله عليه وسلم نے فرمایا :
 ''تم میں سے اس وقت تک کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہشات میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ ہوجائیں''۔  (شرح السنة)
 یہ مقولہ مشہور ہے کہ خواہش غیر محفوظ جائے پناہ ہے۔
            امام شعبی فرماتے ہیں کہ خواہش،خواہش پرست کو پستی میں گرادیتی ہے۔ انجام کی فکر کے بغیر وقتی لذت کی طرف بلاتی اورفوری طور پر شہوت پوری کرنے کے لئے آمادہ کرتی ہے خواہ اس کی بنا پر دنیا وآخرت میں عظیم آلام ومصائب کا سامنا کرنا پڑے۔
            واضح رہے کہ آخرت سے پہلے دنیا میں ہی ہر عمل کا ایک انجام ہوتا ہے لیکن خواہش انسان کی عاقبت اندیشی ختم کرکے اسے انجام کے دیکھنے سے اندھا کردیتی ہے۔ جبکہ عقل اور دین ومروت انسان کو ہر ایسی لذت وشہوت سے روکتے ہیں جن کا انجام ندامت وشرمندگی اور درد والم ہو۔ نفس جب ان لذتوں اور شہوتوں کی طرف بڑھتا ہے تو دین وعقل ومروت میں سے ہر ایک اس سے مخاطب ہوکےکہتے ہیں کہ ایسا نہ کر۔ لیکن اطاعت اسی کی ہوتی ہے جو غالب ہو۔
            آپ دیکھتے ہیں کہ ایک بچہ اپنی خواہش کو ترجیح دیتا ہے خواہ اس کے نتیجے میں بربادی ہاتھ آئے کیونکہ وہ عقل کا کچا ہوتاہے۔ایک بے دین آدمی اپنی خواہش کو ترجیح دیتا ہے خواہ اس کا نتیجہ آخرت کی تباہی ہو کیونکہ وہ دین کا کچا ہوتا ہے اور ایک بے مروت انسان اپنی خواہش کو ترجیح دیتاہے خواہ اس کی مروت داغدار یا ختم ہوجائے کیونکہ وہ مروت کا کچا ہوتا ہے۔
            امام شافعی رحمہ اللہ کا یہ قول سنہرےحروف سے لکھنے کے قابل ہے کہ اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ ٹھنڈا پانی پینے سے میری مروت میں خلل پڑے گا تو میں اسے نہیں پی سکتا !!
خواہشات آزمائش ہیں:
            چونکہ انسان کا امتحان خواہشات کےذریعے رکھا گیا ہے اور وہ ہروقت کسی نہ کسی حادثہ سے دوچار ہوتا رہتا ہے، اس لئےاس کے وجود میں دوحاکم بنا دئیے گئے، ایک عقل اور دوسرا دین۔ پھرانسان کو حکم دیاگیا کہ خواہشات کے حوادث کو ہمیشہ ان دونوں حاکموں کے پاس لے جائے اور ان کےفیصلوں پر سر تسلیم خم کرے۔ انسان کو چاہئے کہ ایسی خواہشات کو بھی دبانے کی عادت ڈالے جن کا انجام مامون ومحفوظ ہو، تاکہ اس میں اذیت ناک انجام والی خواہشات کےچھوڑ دینے کی قوت پیدا ہو۔
خواہش کی غلامی سے نجات کیسے؟
            اگر یہ سوال کیا جائے کہ اس شخص کےنجات کی کیا صورت ہے جو خواہشات کا غلام بن چکا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ الله  کی توفیق اور مدد سے آئندہ سطور میں ذکر کئےگئے چند امور کے اپنانے سے اس کی نجات ممکن ہے۔
آزادانہ عزیمت:
            ١۔ ایسی آزادانہ عزیمت جس میں اپنےنفس کے موافق ومخالف غیرت موجود ہو۔
صبرکا تلخ گھونٹ:
            ٢۔ صبر کا تلخ گھونٹ جس کی تلخی گوارہ کرنے پر اس گھڑی اپنے نفس کو آمادہ کرسکے۔
نفسانی قوت:
            ٣۔ وہ نفسانی قوت جو اس تلخ گھونٹ کےپینے پر حوصلہ افزائی کرے۔ درحقیقت شجاعت ایک گھڑی کی صبر ہی کا نام ہے۔ اور وہ زندگی کتنی پرکیف زندگی ہے جسے بندہ نے اپنے صبر سے پایا ہو۔
عاقبت اندیشی:
            ٤۔ حسن عاقبت اور خوش انجامی کو پیش نظر رکھنا اور اس کو تلخی کا علاج سمجھنا۔
لذت والم کا موازنہ:
            ٥۔ اس بات کو مدنظر رکھنا کہ خواہشات کی لذت سے وہ تکلیف اور سزا کہیں زیادہ ہے جو اس کے نتیجہ میں آتی ہے۔
اپنےمقام ومرتبہ کا خیال:
            ٦۔الله کے نزدیک اور اس کے بندوں کےدلوں میں موجود اپنے مقام ومرتبہ کو بچانے کی کوشش کرنا کیونکہ یہ چیز خواہشات کی لذت سے بہت بہتر اور زیادہ سودمند ہے۔
پاکدامنی کی مٹھاس کو ترجیح:
            ٧۔ عفت وپاکدامنی کی لذت ومٹھاس کوگناہ ومعصیت کی لذت پر ترجیح دینا۔
شیطان کی عداوت:
            ٨۔ اس بات پر خوش ہونا کہ اپنے دشمن(شیطان )پر غلبہ حاصل کرلیا اور اسے غیظ وغضب اور فکر وغم کے ساتھ ناکام ونامرادواپس کردیا اور اس کی امید وآرزو پوری نہ ہوسکی۔
            معلوم ہونا چاہئے کہ الله  تعالیٰ کو اپنے بندے سے متعلق یہ بات بہت پسندہے کہ وہ اپنے دشمن کی ناک مٹی میں ملائے اور اسے غصہ دلائے جیسا کہ قرآن مجید میںارشاد باری ہے :
(وَلَا یَطَئُوْنَ مَوْطِئًا یَّغِیْظُ الْکُفَّارَ وَلَا یَنَالُوْنَ مِنْ عَدُوٍّنَّیْلاً اِلَّا کُتِبَ لَہُمْ بِہِ عَمَل صَالِح) التوبة١٢٠
(اورجو کسی ایسی جگہ چلے جو کفار کے لئے موجب غیظ ہوا ہو اور دشمنوں کی جوکچھ خبر لی ان سب پر ان کے نام ]ایک ایک[ نیک کام لکھا گیا۔)
نیزفرمایا:
(لِیَغِیْظَبِہِمُ الْکُفَّارَ) الفتح/ ٢٩
(تاکہ ان کی وجہ سے کافروں کو چڑائے۔)
نیزفرمایا:
(وَمَنْیُّہَاجِرْ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یَجِدْ فِيْ الارْضِ مُرَاغَماً کَثِیْراًوَّسَعَةً ) النساء /١٠٠
(جوکوئی الله کی راہ میں وطن کو چھوڑے گا وہ زمین میں بہت سی قیام کی جگہیں بھی پائےگا اور کشادگی بھی۔)
            قیام کی جگہوں سے مراد وہ جگہیں ہیںجن کے ذریعے الله کے دشمنوں کی ناک مٹی میں ملا سکے۔ 
            سچی محبت کی علامت یہ ہے کہ محبوب کےدشمنوں کو مبتلائے غیظ کیا جائے اور ان کی ناک خاک آلود کی جائے۔
مقصدتخلیق پر غور:
            ٩۔ اس بات پر غور کرنا کہ اس کی تخلیق خواہشات کے پیچھے چلنے کے لئے نہیں ہوئی بلکہ ایسے عظیم کام کے لئے اسے وجود بخشاگیا ہے جس کا پانا خواہشات سے دوری کے بغیر ناممکن ہے۔
تمیزنفع وضرر:
            ١٠۔اپنے نفس کو ایسی چیزوں کا خوگر نہ بنائے جس کی بنا پر ایک بے عقل چوپایہ اس سے بہتر قرار پائے کیونکہ حیوان طبعی طورپر اپنے نفع وضرر کی تمیز کرلیتا ہے اور نقصان پر فائدہ کو ترجیح دیتا ہے۔ انسان کو اسی مقصد کی خاطر عقل سے نوازا گیا،اگر وہ نفع وضرر میں تمیز نہ کرسکے یا تمیزومعرفت کے باوجود ضرر کو ترجیح دے تو ظاہر ہے کہ ایک بے خرد چوپائے کی حالت اس سےبہتر قرار پائے گی۔
برےانجام پر غور:
            ١١۔ اپنے دل میں خواہشات کے انجام پرغور کرے اور دیکھے کہ گناہوں اور نافرمانیوں کی بنا پر کتنی فضیلتیں فوت ہوگئیںاور کتنی ذلتوں سے ہمکنار ہونا پڑا۔ایک لقمہ نے کتنے لقموں سے محروم کردیا۔ ایکلذت نے کتنی لذتوں سے دور کردیا۔
            کتنی ہی خواہشات اور شہوتیں ایسی ہیںجو انسان کی شان وشوکت کو مٹی میں ملادیتی ہیں۔ اس کا سر جھکادیتی اور اس کی نیکنامی کو بدنامی سے بدل دیتی ہیں۔ اس کی رسوائی کا سامان فراہم کرتی اور اس کے وجودکو ایسی ذلت وعار سے لت پت کردیتی ہیں جسے پانی سے دھوکر صاف نہیں کیا جاسکتا مگرکیا کیا جائے کہ خواہش پرست کی آنکھیں اندھی ہوجاتی ہیں۔
کیاکھویا کیا پایا؟
            ١٢۔ جس سے اس کی خواہش متعلق ہے اس سےمقصد کی تکمیل کے بعد کا تصور کرے اور ضرورت پوری ہونے کے بعد اپنی حالت کا جائزہ لے اور غور کرے کہ اس نے کیا کھویا اور کیا پایا۔
اپنی ذات شریف:
            ١٣۔ دوسروں کے بارے میں اس بات کا کماحقہ تصور کرے پھر اپنے آپ کو اس مقام پر لے جائے اور دیکھے :کیا دونوں معاملے میں اس کی عقل کا فیصلہ ایک ہی ہے ؟؟
عقل ودین کا فیصلہ:
            ١٤۔ اپنے نفس کے مطالبہ پر غور کرےاور اپنی عقل اور اپنے دین سے اس کے متعلق دریافت کرے،یہ دونوں اسے بتائیں گے کہیہ کوئی اہم بات نہیں ہے۔
             عبد اللہ بن مسعود رضي الله عنه  فرماتے ہیں: جب تم میں سے کسی شخص کو کوئی عورت اچھی لگے تو اس کی گندی اور بدبو دار جگہوں کا خیال کرے (وہ بری لگنے لگے گی )۔
ذلت سے برتری:
            ١٥۔ خواہش کی غلامی کی ذلت سے اپنے آپکو بلند تصور کرے۔ جو شخص ایک بار بھی اپنی خواہش کے پیچھے چلتا ہے لازمی طور پراپنے آپ میں ذلت محسوس کرتا ہے۔ بندگانِ خواہشات کے اکڑفوں اور کبر وغرور سے دھوکانہیں کھانا چاہئے کیونکہ وہ اندرونی طور پر کافی ذلیل اور پست ہوتے ہیں لیکن عجب انداز سے ذلت وغرور (احساس کمتری وبرتری) دونوں ان میں یکجا ہوتا ہے۔
خیروشر کا موازنہ:
            ١٦۔ دین وآبرو اور مال وجاہ کی سلامتی ایک طرف اور مطلوبہ لذت کا حصول ایک طرف، دونوں میں موازنہ کرے۔ان دونوں کے درمیان قطعی کوئی نسبت نہیں۔ اس سے بڑا نادان کون ہوگا جو ایک کے بدلہ میں دوسرے کو فروخت کرے۔!
بلندہمتی:
            ١٧۔ اپنے دشمن کے زیر اقتدار اور اسکے قابو میں رہنے سے اپنے آپ کو بلند تصور کرے کیونکہ شیطان جب بندہ میں ہمتوعزیمت کی کمزوری اور خواہشات کی طرف جھکاؤ اور میلان دیکھتا ہے تو اس کو زیر کرنےکی لالچ کرتا ہے اور موقع پاتے ہی اسے چت کردیتا اور خواہشات کی لگام پہنا کر جہاں چاہتا ہے لے جاتا ہے۔ لیکن شیطان جب بندہ میں قوت وعزیمت، شرف نفس اور علو ہمتدیکھتا ہے تو اس کی اسیری کا حریص نہیں ہوتا البتہ چوری، چپکے اور دھوکے سے اسےضرور نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔
خواہش کے نقصانات:
            ١٨۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ خواہش جسچیز میں مل جاتی ہے اسے بگاڑ کے رکھ دیتی ہے۔
             اگر علم میں خواہش نفس کی ملاوٹ ہوجائے تو بدعتوضلالت جنم لیتی ہے اور ایسا عالم خواہش پرستوں کی صف میں شامل ہوجاتا ہے۔
             اگر زہد میں اس کی آمیزش ہوجائے تو ریاکاری اورسنت رسول سے روگردانی پیدا ہوجاتی ہے۔
            اگر فیصلہ کرنے میں اس کی ملاوٹہوجائے تو حق تلفی پر اکساتی ہے اور انسان کو ظالم بنادیتی ہے۔
            اگر تقسیم میں اس کی ملاوٹ ہوجائے توعادلانہ کے بجائے اسے ظالمانہ بنادیتی ہے۔
            اگر مناصب کی تولیت ومعزولی میں اس کیملاوٹ ہوجائے تو انسان الله تعالیٰ اور مسلمانوں کی خیانت میں مبتلا ہوجاتا ہے پھروہ اپنی خواہش سے اہلیت وصلاحیت کو دیکھے بغیر جسے چاہتا ہے عہدہ ومنصب سے نوازتاہے اور جسے چاہتا ہے اس سے معزول کرتا ہے۔
            اگر عبادت میں خواہش کی ملاوٹ ہوجائےتو وہ اطاعت اور تقرب کا ذریعہ باقی نہیں رہ جاتی۔
             غرضیکہ جس چیز میں بھی خواہش نفس کی ملاوٹہوجاتی ہے اسے بگاڑ کے رکھ دیتی ہے۔
شیطان کا چور دروازہ:
            ١٩۔ یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہنفسانی خواہشات ہی کے چور دروازے سے شیطان انسان پر داخل ہوتا ہے۔ انسان کے دلودماغ، فکرونظر، اور اعمال وکردار میں فساد اور بگاڑ پیدا کرنے کے لئے شیطاندروازے کی تلاش میں ہوتا ہے پھر جب خواہشات کا دروازہ پاجاتا ہے تو اس کے ذریعہداخل ہوکر تمام اعضاء میں زہر کی طرح پھیل جاتا ہے۔
شریعتکی خلاف ورزی:
            ٢٠۔ الله سبحانہ وتعالیٰ نے خواہشا تکو اپنے رسول پر نازل کردہ شریعت کے منافی بنایا ہے اورخواہشات کی اتباع کو رسولکی اتباع کے مقابل قرار دیا ہے نیز لوگوں کی دو قسمیں بتائی ہیں: ایک وہ جو وحی کااتباع کرتے ہیں، دوسرے وہ جو خواہشات کے پیچھے چلتے ہیں۔ قرآن مجید میں اس کا ذکربکثرت ہوا ہے۔ فرمان باری ہے:
(فَاِنْلَّمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَکَ فَاعْلَمْ أَنَّمَا یَتَّبِعُوْنَ أَہْوَائَہُمْ)قصص/٥٠
(پھراگر یہ آپ کی بات نہ مانیں توآپ یقین کرلیں کہ یہ صرف اپنی خواہش کی پیروی کررہےہیں۔)
دوسریجگہ ارشاد ہے :
(وَلَئِنِاتَّبَعْتَ أَہْوَائَہُمْ بَعْدَ الَّذِيْ جَآء کَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَکَ مِنَاللّٰہِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلاَ نَصِیْرٍ) البقرة١٢٠
(اوراگر آپ نے باوجود اپنے پاس علم آجانے کے پھر ان کی خواہشوں کی پیروی کی تو الله کےپاس آپ کا نہ تو کوئی ولی ہوگا اور نہ مددگار۔)
اسطرح کی اور بھی دیگر آیات ہیں۔
حیواناتکی مشابہت:
            ٢١۔ الله تعالیٰ نے خواہش پرستوں کیتشبیہ ان حیوانات سے دی ہے جو صورت ومعنی دونوں لحاظ سے سب سے حقیر اور خسیس مانےجاتے ہیں۔ کبھی کتے سے تشبیہ دی اور فرمایا :
(وَلٰکِنَّہُأَخْلَدَ اِلَیٰ الارْضِ وَاتَّبَعَ ہَوَاہُ فَمَثَلُہُ کَمَثَلِ الْکَلْب)ِ    أعراف/١٧٦
(لیکنوہ تو دنیا کی طرف مائل ہوگیا اور اپنی نفسانی خواہش کی پیروی کرنے لگا سو اس کیحالت کتے کی سی ہوگئی۔)
اورکبھی گدہے سے تشبیہ دی اور فرمایا:
(کَأَنَّہُمْحُمُر مُّسْتَنْفِرَة فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ)مدثر٥٠ـ٥١
(گویا کہ وہ بدکے ہوئے گدہے ہیں جو شیر سے بھاگے ہوں)۔
اورکبھی الله تعالیٰ نے ان کی صورتیں بندروں اور سوروں کی شکل میں تبدیل فرمادی۔
نااہلی ونالائقی:
            ٢٢۔ خواہش کا پیروکار قیادت وسیادتاور امامت وپیشوائی کا اہل نہیں ہوتااور نہ ہی اس لائق ہوتا ہے کہ اس کی اطاعت کیجائے اور بات مانی جائے اسی ناطے الله تعالیٰ نے ایسے شخص کو امامت سے معزولفرمایا ہے اور اس کی بات ماننے سے روکا ہے۔ الله تعالیٰ نے اپنے خلیل ابراہیم علیہالسلام کو مخاطب کرکے فرمایا :
انِّيْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَاماًقَالَ وَمِنْ ذُرِّیَّتيِْ قَالَ لَایَنَالُ عَہْدِيْ الظَّالِمِیْنَ)     البقرة ١٢٤
(میںتمھیں لوگوں کا امام بنادوں گا، عرض کرنے لگے اور میری اولادکو، فرمایا : میراوعدہ ظالموں سے نہیں۔)
            یعنی خواہش کے پیروکار سب کے سب ظالمہیں لہذا اس وعدہ کے مستحق نہیں ہیں جیسا کہ الله تعالیٰ نے مزید فرمایا:
(بَلِاتَّبَعَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا أَہْوَآء ہُمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ) روم/٢٩
(بلکہبات یہ ہے کہ ظالم تو بغیر علم کے خواہش کے پیچھے چل رہے ہیں۔)
            ایک اور مقام پر الله تعالیٰ نے ایسےلوگوں کی اطاعت سے منع کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
(وَلَاتُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَہُ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوَاہُ وَکَانَأَمْرُہُ فُرُطاً)    الکہف/٢٨
(دیکھاس کا کہنا نہ ماننا جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے اور جو اپنیخواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور جس کا کام حد سے گذر چکا ہے۔)
بتپرستی:
            ٢٣۔ الله تعالیٰ نے خواہش پرست کو بتپرست کے درجہ میں رکھا ہے۔ فرمایا:
(أَرَأَیْتَمَنِ اتَّخَذَ اِلٰہَہُ ہَوَاہُ) فرقان٤٣
(کیاآپ نے اسے بھی دیکھا جو اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنائے ہوئے ہے)۔
 الله تعالیٰ نے یہ بات دو مقامات پر ارشادفرمائی۔
            امام حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اسسے وہ منافق مراد ہے کہ جس چیز کی بھی خواہش کرتا ہے کربیٹھتا ہے۔نیز یہ بھیفرمایا کہ منافق اپنی خواہشات کا غلام ہوتا ہے،اس کا نفس جس بات کی خواہش کرتا ہےوہ کرتا جاتا ہے۔
جہنمکا باڑھ:
            ٢٤۔نفسانی خواہشات ہی جہنم کا باڑھہیں، اسی سے جہنم گھری ہوئی ہے لہذا جو نفسانی خواہشات کا شکار ہوگا جہنم سے دوچارہوگا۔ جیسا کہ صحیحین میں نبی صلى الله عليه وسلم کاارشاد ہے:
''جنتکو ناپسندیدہ چیزوں سے اور جہنم کو نفسانی خواہشات سے گھیردیا گیا ہے''۔
ترمذیمیں ابوہریرہ رضى الله عنه سے مرفوعاً روایت ہے کہ :
''جبالله تعالیٰ نے جنت کی تخلیق فرمائی، جبریل علیہ السلام کو  یہ حکم دے کر بھیجا کہ جنت کو اور اہل جنت کےلئے جوکچھ میں نے اس میں تیار کر رکھا ہے اس کو دیکھ کر آؤ۔چنانچہ جب وہ جنت دیکھکر واپس ہوئے تو کہا : تیری عزت کی قسم! تیرا جو بندہ اس کے بارے میں سنے گا وہضرور اس میں داخل ہوگا۔ پھر الله تعالیٰ کے حکم سے جنت کو ناگوار چیزوں سے گھیردیا گیا۔ الله تعالیٰ نے جبریل کو دوبارہ جاکر دیکھنے کا حکم دیاجب کہ اسےناپسندیدہ چیزوں سے گھیرا جاچکا تھا جبریل علیہ السلام نے واپس آکر کہا :تیری عزتکی قسم! مجھے اندیشہ ہے کہ اس میں کوئی نہ داخل ہوسکے گا۔ پھر الله تعالیٰ نےفرمایا: جہنم اور اہل جہنم کے لئے میں نے جوکچھ تیار کر رکھا ہے اس کو جاکر دیکھو،جبریل آئے اور دیکھا کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصہ پر چڑھا جاتا ہے۔ لوٹ کر آئے اورباری تعالیٰ سے عرض کیا : تیری عزت کی قسم! اس کا حال جوسنے گا ا س میں نہیں داخلہوگا۔ پھر الله کے حکم سے اس کو نفسانی خواہشات سے گھیر دیا گیا۔ الله تعالیٰ نےفرمایا پھر جاکر دیکھو۔ اب دیکھا تو اسے شہوات سے گھیرا جاچکا تھا۔ لوٹ کرآئے اورکہا : تیری عزت کی قسم! مجھے اندیشہ ہے کہ اس سے کوئی نجات نہ پاسکے گا۔ ''    (امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیحہے)۔
اندیشۂکفر:
            ٢٥۔ نفسانی خواہشات کے پیچھے چلنےوالے کے بارے میں اسلام سے لاشعوری طور پر نکل جانے کا اندیشہ ہے۔ نبی صلىالله عليه وسلم کا یہ فرمان ثابت ہے:
 ''تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جبتک کہ اس کی خواہش میرے لائے ہوئے دین کے تابع نہ ہوجائے۔''
اورصحیح حدیث میں یہ بھی ہے کہ نبی صلى الله عليه وسلم نےفرمایا :
''مجھے تمھارے بارے میں جس چیز کا سب سے زیادہ ڈر ہے وہ تمھارے پیٹ اور شرمگاہ کیبہکا دینے والی شہوتیں اور نفسانی خواہشات کی گمراہ کن باتیں ہیں۔''
موجبِہلاکت:
             ٢٦۔ نفسانی خواہشات کے پیچھے چلنا موجب ہلاکتہے۔
 نبی صلىالله عليه وسلم کا ارشاد ہے:
''تینچیزیں باعث ِنجات اور تین چیزیں باعث ہلاکت ہیں : نجات دینے والی پہلی چیز کھلےاور چھپے الله  کا تقوی ہے۔ دوسری چیز خوشیاور ناراضی ہرحال میں حق گوئی، تیسری چیز فقیری اور امیری ہر حال میں میانہ رویہے۔ اور ہلاک کرنے والی پہلی چیز وہ نفسانی خواہش ہے جس کی اتباع کی جائے۔ دوسریچیز وہ بخل ہے جس کی بات مانی جائے اور تیسری چیز آدمی کی خود پسندی ہے''۔
باعثفتح وظفر:
            ٢٧۔ نفسانی خواہش کی مخالفت کرنے سےبندہ اپنے جسم اور دل وزبان میں قوت پاتا ہے۔
            بعض سلف کا قول ہے کہ اپنی خواہش پرغلبہ حاصل کرنے والا اس سے بھی زیادہ طاقتور ہے جو تنہا کسی ملک کو فتح کرتا ہے۔صحیح حدیث میں نبی صلى الله عليه وسلم کافرمان ہے:
''پہلوانوہ نہیں جو کسی کو پچھاڑ دے بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ پر قابوپالے۔''
            آدمی جب جب اپنی خواہش کی مخالفت کرتاہے اپنی قوت میں برابر اضافہ کرتا جاتا ہے۔
اخلاقومروت:
            ٢٨۔ اپنی خواہش کے خلاف چلنے والا سبسے زیادہ بامروت انسان ہوتا ہے۔ معاویہ رضى الله عنه فرماتے ہیں: خواہشات کوچھوڑدینا اور ہوائے نفس کی بات نہ ماننا یہی مروت ہے۔ خواہشات کے پیچھے چلنا مروتکو بیمار کردیتا ہے۔ اور اس کی مخالفت،مروت کو افاقہ عطا کرتی اور شفادیتی ہے۔
عقلاور خواہش کی جنگ:
            ٢٩۔ ہر دن خواہش اور عقل باہم دستوگریباں ہوتے ہیں جو جیت جاتا ہے شکست خوردہ کو بھگادیتا ہے اور خود حکومت و تصرفکرتا ہے۔ ابودرداء رضى الله عنه فرماتے ہیں: آدمی جب صبح کرتا ہے اس کی عقل اورخواہش اکٹھا ہوتی ہے۔اگر اس کی عقل خواہش کے تابع ہوئی تو وہ ایک برا دن ہوتا ہےاور اگر خواہش عقل کے تابع ہوئی تو وہ ایک اچھا دن ہوتاہے۔
غلطیکا امکان:
            ٣٠۔ الله تعالیٰ نے خطا اور اتباع ہوا(غلطی اورخواہش کی پیروی) کو ایک دوسرے کا ساتھی بنایاہے۔ اسی طرح درستی اور خواہشکی مخالفت کو ایک دوسرے کا ساتھی بنایا ہے جیسا کہ بعض سلف کا قول ہے: جب تمھیں دوباتوں میں شبہ ہوجائے کہ زیادہ سخت کون ہے تو جو تمھاری خواہش کے قریب ہو اس کیمخالفت کرو کیونکہ خواہش کے پیچھے چلنے ہی میں غلطی کا زیادہ امکان ہے۔
بیماریاور علاج:
            ٣١۔ خواہش بیماری ہے اور اس کا علاجاس کی مخالفت ہے۔ کسی عارف کا قول ہے: اگر تم چاہو تو تم کو تمھارا مرض بتادوں اوراگر چاہو تو اس کی دوا بھی بتادوں؟ نفسانی خواہش تمھارامرض ہے، اس کو چھوڑ دینااور اس کی مخالفت کرنا اس کی دوا ہے۔
            بشرحافی فرماتے ہیں : ساری بلائیںنفسانی خواہشات کی بنا پر ہیں اور سارا علاج اس کی مخالفت میں ہے۔
جہاد:
            ٣٢۔ خواہشات سے جہاد اگر جہادِ کفارسے بڑھ کر نہیں تو اس سے کم تر بھی نہیں ہے۔
            ایک شخص نے حسن بصری سے کہا : اےابوسعید! کون سا جہاد افضل ہے؟ فرمایا :خواہشات نفسانی سے جہاد کرنا۔
             شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتےہیں: نفس اور خواہش سے جہاد، کفار ومنافقین سے جہاد کی بنیاد ہے کیونکہ ان سے اسوقت تک کوئی جہاد نہیں کرسکتا جب تک کہ ان کی طرف نکلنے کے لئے اپنے نفس اور خواہشسے جہاد نہ کرے۔
مرضبڑھتا گیا:
            ٣٣۔ خواہش بیماری کو بڑھادینے والیچیز ہے اور اس کی مخالفت پرہیز ہے۔ ایسا شخص جو مرض بڑھانے والی چیز کا استعمالکرے اور پرہیز سے دور رہے اس کے انجام کے بارے میں خطرہ یہی ہے کہ بیماری اسے دبوچلے گی۔
محرومیوبے توفیقی:
            ٣٤۔ خواہشات کی اتباع سے توفیق کےدروازے بند ہوجاتے اور محرومی کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ ایسے لوگاپنی زبان سے کہتے رہتے ہیں کہ اگر الله توفیق دے تو ایسا اور ایسا کرگذریں مگرخواہشات کی اتباع کرکے انھوں نے اپنے لئے توفیق کے راستے مسدود کرلئے ہیں۔
            فضیل بن عیاض کا قول ہے: جس شخص پرشہوت اور خواہش  غالب آجاتی ہے توفیق اس سےمنقطع ہوجاتی ہے۔
            کسی عالم کا قول ہے کہ کفر چار چیزوںمیں ہے :غضب اور شہوت میں، لالچ اور خوف میں۔پھر فرمایا کہ دو کو میں نے اپنیآنکھوں سے دیکھا: ایک شخص غصہ میں آیا اور اس نے اپنی ماں کو قتل کرڈالا، دوسراشخص مبتلائے عشق ہوکر نصرانی ہوگیا۔
فسادعقل وخرد:
            ٣٥۔ جو آدمی اپنی خواہشات کو ترجیحدیتا ہے اس کی عقل فاسد اور رائے بگڑجاتی ہے۔ اس لئے کہ اپنی عقل کے معاملے میں اسنے الله کی خیانت کی تو الله نے اس کی عقل کو فاسد کردیا۔ تمام امور میں  الله کی سنت یہی ہے کہ جو کوئی اس میں خیانتکرتا ہے الله تعالیٰ اسے فاسد کردیتا اور بگاڑدیتا ہے۔
قبروآخرت کی تنگی:
            ٣٦۔ جو اپنی خواہشات کی تکمیل میںاپنے نفس پر کشادگی کرتا ہے تو اس پر قبر اور آخرت میں تنگی ہوگی۔اس کے برخلاف جونفس کی مخالفت کرکے اس پر تنگی کرتا ہے اس کی قبر اور آخرت میں اس پرفراخی ہوگی۔ اللهتعالیٰ نے اپنے اس فرمان میں اسی طرف اشارہ کیا ہے:
(وَجَزَاہُمْبِمَاصَبَرُوْا جَنَّةً وَّحَرِیْراً)      الدہر١٢
(اورانہیںان کے صبرکے بدلہ جنت اورریشمی لباس عطافرمائے۔)
            چونکہ صبر جوکہ خواہشات سے نفس کوروکنے کانام ہے اس میں کھردرا پن اور تنگی ہے اس لئے بدلے میں نرم وگداز ریشم اورجنت کی وسعت عطافرمائی۔
             ابوسلیمان دارانی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میںفرماتے ہیں : شہوتوں سے صبر کرنے پر یہ بدلہ عطا فرمایا۔
رکاوٹ:
            ٣٧۔نفسانی خواہشات قیامت کے دن نجاتیافتہ بندوں کے ساتھ اٹھ کر دوڑنے سے رکاوٹ بن جائیں گے، جس طرح دنیا میں ان کاساتھ دینے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
            محمد بن ابی الورد کا قول ہے کہ اللهتعالیٰ نے ایک دن ایسا بنایا ہے جس کی مصیبت سے خواہشات کے پیچھے چلنے والا نجاتنہیں پاسکتا۔ قیامت کے دن جو شخص سب سے دیر سے اٹھے گا وہ شہوتوں کا پٹخا ہواہوگا۔ عقلیں جب طلب کے میدان میں دوڑتی ہیں تو سب سے زیادہ حصہ کی مستحق وہ ہوتیہے جس کے پاس سب سے زیادہ صبر ہو۔ عقل معدن ہے اور فکر اس معدن سے خزانے نکالنے کاآلہ ہے۔
عزائمکی پستی:
            ٣٨۔ خواہشات کی غلامی عزائم کی پستیاور کمزوری کا سبب ہے اور اس کی مخالفت عزائم کو مضبوطی اور طاقت عطا کرتی ہے۔عزموہ سواری ہے جس کے ذریعہ بندہ الله اور آخرت کی طرف سفر کرتا ہے، اگر سواری خرابہوجائے تو مسافر کی منزل بہت دور ہوجاتی ہے۔
             یحییٰ بن معاذ سے دریافت کیا گیا : عزم کےاعتبار سے صحیح ترین انسان کون ہے؟ فرمایا : وہ جو اپنی خواہشات پر غالب آجائے۔
بدترینسواری:
            ٣٩۔خواہش پرست کی مثال اس گھڑ سوار کیسی ہے جس کا گھوڑا نہایت تیز رفتار،بے قابو، سرکش اور بے لگام ہو، دوڑنے کے دوراناپنے سوار کو پٹخ دے یاکسی ہلاکت کے مقام پر پہنچادے۔
            ایک عارف کا کلام ہے : جنت کو پہنچانےوالی سب سے تیز رفتار سواری دنیا سے بے رغبتی ہے اور جہنم تک پہنچانے والی سب سےتیزرفتار سواری خواہشات کی محبت ہے۔ خواہشات کا سوار ہلاکتوں کی وادی میں نہایتتیزی کے ساتھ پہنچ جائے گا۔
            ایک دوسرے عارف کا کلام ہے کہ سب سےزیادہ صاحب شرف وہ عالم ہے جو اپنے دین کی حفاظت کے لئے دنیا سے بھاگے اور خواہشاتکے پیچھے چلنا اس کے لئے دشوار ہو۔
            عطا فرماتے ہیں : جس کی خواہش اس کیعقل پر اور بے قراری اس کے صبر پر غالب آجائے وہ رسوا ہوجائے گا۔
توحیدکی ضد:
            ٤٠۔ توحید اور نفسانی خواہش کا اتباعایک دوسرے کی ضد ہیں۔ نفسانی خواہش ایک بت ہے اور ہر خواہش پرست کے دل میں اس کیخواہش کے مطابق بت موجود ہیں۔ الله تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو اسی لئے بھیجا کہ وہبتوں کو توڑیں اور ایک الله وحدہ' لاشریک کی عبادت کا غلغلہ بلند کریں۔ اللهتعالیٰ کا یہ مقصود ہرگز نہیں کہ جسمانی اور ظاہری بتوں کو توڑ دیا جائے اور دلوںکے بتوں کو چھوڑ دیا جائے بلکہ دلوں کا بت ہی سب سے پہلے توڑنا ہے۔
            حسن بن علی مطوعی کا قول ہے: ہر انسانکا بت اس کی نفسانی خواہش ہے، جس نے خواہشات کی مخالفت کرکے اس بت کو توڑ دیا وہیجوان کہلانے کا مستحق ہے۔ ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنی قوم سے جو باتکہی تھی ذرا اس پر غور کرو، فرمایا:
(مَاہٰذِہِ التَّمَاثِیْلُ الَّتِيْ أَنْتُمْ لَہَا عَاکِفُوْنَ) انبیاء/٥٢
(یہمورتیاں کیا ہیں جن کے تم مجاور بنے بیٹھے ہو ؟)
            ان کی بات ان بتوں پر کس قدر فٹ آتیہے جنھیں خواہشات کی شکل میں انسان دل میں بٹھائے ہوتا ہے، ان میں منہمک رہتا اور اللهکو چھوڑ کر ان کی پرستش کرتا ہے۔ الله تعالیٰ کا ارشاد ہے :
(أَرَأَیْتَمَنِ اتَّخَذَ ِالٰہَہُ ہَوَاہُ أَفَأَنْتَ تَکُوْنُ عَلَیْہِ وَکِیْلاً أَمْتَحْسَبُ أَنَّ أَکْثَرَہُمْ یَسْمَعُوْنَ أَوْ یَعْقِلُوْنَ اِنْ ہُمْ اِلاَّکَالانْعَامِ بَلْ ہُمْ أَضَلُّ سَبِیْلاً) فرقان/ ٤٣ـ٤٤
(کیا آپ نے اسے بھی دیکھا جو اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنائے ہوئے ہے، کیا آپاس کے ذمہ دار ہو سکتے ہیں؟ کیا آپ اسی خیال میں ہیں کہ ان میں سے اکثر سنتے یاسمجھتے ہیں، وہ تو نرے چوپایوں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے)۔
بیماریوںکی جڑ:
            ٤١۔خواہش کی مخالفت سے دل اور بدن کیبیماریاں ختم ہوتی ہیں۔ جہاں تک دل کی بیماریوں کا معاملہ ہے تو وہ ساری کی ساریخواہش پرستی ہی کا نتیجہ ہوتی ہیں اور اگر آپ تحقیق کریں تو معلوم ہوگا کہ بیشترجسمانی بیماریوں کی وجہ بھی یہی ہوتی ہے کہ کسی چیز کے چھوڑ دینے کے عقلی فیصلہ پرخواہش نفس کو ترجیح دی جاتی ہے۔
عداوتوںکی بنیاد:
            ٤٢۔ لوگوں کی آپسی عداوت اور شروحسدکی بنیاد خواہش پرستی ہے۔ جو شخص خواہش پرستی سے دور ہوتا ہے وہ اپنے قلب وجگر اورجسم واعضاء کو راحت پہنچاتا ہے۔ خود بھی آرام میں ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی اس سےآرام ہوتا ہے۔
            ابوبکر وراق کا قول ہے: جب خواہش غالبآتی ہے دل کو تاریک کردیتی ہے۔ جب دل تاریک ہوتا ہے سینہ تنگ ہوجاتا ہے۔ جب سینہتنگ ہوجاتا ہے اخلاق برے ہوجاتے ہیں۔ جب اخلاق برے ہوجاتے ہیں تو مخلوق اسے ناپسندکرنے لگتی ہے اور وہ بھی دوسروں کو ناپسند کرنے لگتا ہے اور جب نوبت اس باہمی بغضوعداوت تک پہنچ جاتی ہے تو اس کے نتیجہ میں انتہائی شروفساد اور ترک حقوق وغیرہپیدا ہوتا ہے۔

ایکہی فاتح:
            ٤٣۔ الله تعالیٰ نے انسان میں دوقوتیں پیدا فرمائی ہیں۔ ایک خواہش اور دوسری عقل۔ان دونوں میں سے جب ایک قوتنمایاں ہوتی ہے تو دوسری قوت چھپ جاتی ہے۔
            ابوعلی ثقفی کا قول ہے : جس پر خواہشکا غلبہ ہوتا ہے اس کی عقل چھپ جاتی ہے۔ بھلا اس کا انجام کیا ہوگا جس کی عقل غائبہو اور  بے عقلی ظاہر ہو۔ !!
            علی بن سہل کا قول ہے : عقل اور خواہشباہم لڑتے ہیں۔ توفیق عقل کے ساتھ ہوتی ہے اور محرومی خواہش کے ساتھ۔ نفس ان دونوںکے بیچ ہوتی ہے۔ ان میں سے جس کی فتح ہوتی ہے نفس اسی کے ساتھ ہوجاتی ہے۔
شیطانکا ہتھیار:
            ٤٤۔ الله تعالیٰ نے دل کو اعضاء کابادشاہ بنایا ہے اور اپنی محبت ومعرفت اور عبودیت کا معدن قرار دیا ہے اور دوبادشاہوں، دو لشکروں، دومددگاروں اور دوہتھیاروں سے اس کی آزمائش فرمائی ہے۔ حقوہدایت اور زہد وتقوی ایک بادشاہ ہے، جس کے مددگار ملائکہ ہیں،جس کا لشکر وہتھیارصدق واخلاص اور خواہشات سے دوری ہے۔ باطل دوسرا بادشاہ ہے، شیاطین اس کے مددگارہیں، اس کا لشکر وہتھیار خواہشات کی اتباع ہے۔ نفس ان دونوں لشکروں کے درمیان کھڑاہوتا ہے۔دل پر باطل کے لشکروں کا حملہ اسی کی جانب اور اسی کی سرحد سے ہوتا ہے۔نفس دل کو مدہوش کرکے اس کے خلاف اس کے دشمنوں سے مل جاتا ہے۔ نفس ہی دل کے دشمنوںکو ہتھیار اور سامان رسد پہنچاتاہے اور قلعہ کا دروازہ ان کے لئے کھول دیتا ہےچنانچہ دل بے سہارا ہوجاتا ہے اور باطل کی فتح ہوجاتی ہے۔
سبسے بڑا دشمن:
            ٤٥۔انسان کا سب سے بڑا دشمن اس کاشیطان اورخود اس کی اپنی خواہش ہے اور اس کا سب سے بڑا دوست اس کی عقل اور اس کافرشتہ ہے۔ جب انسان اپنے خواہش کی پیروی کرتا ہے اور ہوائے نفس کا اسیر ہوجاتا ہےاور اپنے دشمن کو خوش ہونے کا موقع دیتا ہے تو اس کا دوست اور محبوب اس بات کو ناپسندکرتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس سے الله کے نبیصلى الله عليه وسلم پناہ مانگا کرتے تھے۔ آپ فرماتے :
''اَللّٰہُمَّاِنِّيْ أَعُوْذُبِکَ مِنْ جَہْدِ الْبَلاَءِ وَدَرَکِ الشَّقَآءِ وَسُوْءِ الْقَضَآءِوَشَمَاتَةِ الاعْدَآءِ ''
]اےالله میں تیری پناہ چاہتا ہوں سخت بلا سے اور بد بختی آنے سے اور بری قضا سے اوردشمنوں کی خوشی سے۔[
آغازوانجام:
            ٤٦۔ ہر انسان کا ایک آغاز اور ایکانجام ہوتا ہے۔ جس کا آغاز خواہشات کی اتباع سے ہوگا اس کا انجام ذلت وحقارت،محرومی اور بلائیں ہوں گی۔ جس قدر وہ اپنی خواہش کے پیچھے چلے گا اسی قدر دلی عذابمیں مبتلا رہے گا۔ کسی بھی بدحال شخص پر آپ غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ اس کاآغاز یہ تھا کہ وہ اپنی خواہشات کے پیچھے چلتا رہا اور اپنی عقل پر اسے ترجیح دیتارہا۔ اس کے برخلاف جس شخص کی ابتدا اپنی خواہشات کی مخالفت اور اپنی سوجھ بوجھ کیاطاعت سے ہوگی اس کا انجام عزوشرف، جاہ واقتدار اور مال ودولت ہوگا۔ لوگوں کےنزدیک بھی اور الله کے نزدیک بھی ہرجگہ اس کا ایک مقام ہوگا۔
            ابو علی دقاق کا قول ہے کہ جو اپنیجوانی میں اپنی خواہشات پر قابو رکھتا ہے بڑھاپے میں الله تعالیٰ اسے عزت عطافرماتا ہے۔
            مہلب بن ابی صفرة سے پوچھا گیا کہ آپاس مقام پر کس طرح پہنچے ؟ فرمایا : ہوش و خرد کی اطاعت کرکے اور خواہشات کینافرمانی کرکے۔
            یہ تو دنیا کا آغاز وانجام ہے۔ آخرتکا بھی یہی معاملہ ہے کہ خواہش کی مخالفت کرنے والوں کے لئے الله تعالیٰ نے جنتبنائی ہے اور اس کے پیچھے چلنے والوں کے لئے جہنم تیار کر رکھا ہے۔
پاؤںکی بیڑیاں:
            ٤٧۔نفسانی خواہشات دل کی غلامی، گلےکا طوق اور پاؤں کی بیڑیاں ہیں۔ خواہش پرست ہربدکردار کا غلام ہوتا ہے لیکن خواہشکی مخالفت کرتے ہی اس کی غلامی سے نکل کر آزاد ہوجاتا ہے۔ گلے کا طوق اور پاؤں کیبیڑیاں نکال پھینکتا ہے۔
لیدکے بدلے موتی:
            ٤٨۔ خواہش کی مخالفت بندہ کو اس مقامپر لا کھڑا کرتی ہے کہ اگر وہ الله کے نام کی قسم کھالے تو الله تعالیٰ اس کی قسمپوری فرماتا ہے۔ خواہشات کی جتنی لذت سے وہ محروم رہتا ہے اس سے کئی گنا زیادہ اللهتعالیٰ اس کی ضروریات کی تکمیل کرتا ہے۔ اس کی مثال اس شخص جیسی ہوتی ہے جس نےجانور کی لید سے اعراض کیا تو اس کے بدلہ اسے موتی سے نوازا گیا۔
            خواہش پرست اپنی خواہشات سے جتنی لذتنہیں پاتا اس سے کہیں زیادہ دنیاوی اور اخروی مصلحتیں اور زندگی کی خوش گواریاںفوت کردیتا ہے۔ یوسف علیہ السلام نے جب اپنے آپ کو حرام سے بچایا تو قید سے نکلنےکے بعد ان کا دست وزبان اور نفس وقدم جس قدر آزاد تھا غور کرنے کی چیز ہے۔
            عبد الرحمن بن مہدی فرماتے ہیں : میںنے سفیان ثوری رحمہ اللہ کو خواب میں دیکھا۔میں نے ان سے کہا : الله نے آپ کے ساتھکیا معاملہ فرمایا ؟ انھوں نے کہا : جوں ہی مجھے لحد میں رکھا گیا مجھے الله تبارکوتعالیٰ کے سامنے کھڑا ہونا پڑا۔ الله تعالیٰ نے میرا ہلکا حساب لیا۔ پھر جنت کیطرف لے جانے کا حکم فرمایا۔ ایک دن جب کہ میں جنت کے درختوں اور نہروں کے درمیانگھوم رہا تھا، نہ کوئی آہٹ تھی نہ حرکت، اچانک میں نے ایک شخص کو سنا جو میرا ناملے کر پکار رہا تھا، سفیان بن سعید ! تمھیں وہ دن یاد ہے جب تم نے اپنی خواہش کےخلاف الله تعالیٰ کے حکم کو ترجیح دی تھی۔ میں نے کہا : ہاں ! الله کی قسم۔ پھر ہرطرف سے مجھ پر پھول برسنے لگے۔

مقامِعزت:
            ٤٩۔ خواہش کی مخالفت دنیا وآخرت کےشرف کا باعث اور ظاہر وباطن کی عزت کا موجب ہے اور اس کی موافقت دنیا وآخرت کیپستی اور ظاہر وباطن کی ذلت کاباعث ہے۔ جب قیامت کے دن الله تعالیٰ تمام انسانوںکو ایک ہموار زمین پر اکٹھا فرمائے گا تو ایک پکارنے والا پکارے گا : آج محشروالوں کو معلوم ہوجائے گا کہ عزت والا کون ہے ؟ متقی کھڑے ہوجائیں۔ چنانچہ وہ سبمقام عزت کی طرف چل پڑیں گے۔ خواہشات کی اتباع کرنے والے سروں کو جھکائے ہوئےخواہشات کی گرمی، اس کے پسینے او ر اس کی تکلیفوں میں پریشان ہوں گے جب کہ متقی عرشکے سایہ میں ہوں گے۔
عرشالٰہی کا سایہ:
            ٥٠۔ اگر آپ ان سات لوگوں کے بارے میںغور کریں جنھیں الله تعالیٰ اس دن عرش کا سایہ نصیب فرمائے گا جب اس کے سایہ کےسوا کوئی دوسرا سایہ نہ ہوگا تو آپ کو معلوم ہوگاکہ ان کو عرش کا سایہ خواہشات کیمخالفت کی بنا پر حاصل ہوا ہے۔
            ایک حاکم جو مضبوط اقتدار اور مستحکمسلطنت کا مالک ہو اپنی خواہشات کی مخالفت کئے بغیر عدل نہیں کرسکتا۔
            ایک جوان خواہشات کی مخالفت کے بغیراپنی جوانی کے جذبات پر عبادت الٰہی کو ترجیح نہیں دے سکتا۔
            ایک مسلمان لذت گاہوں کی طرف جانے پرآمادہ کرنے والی خواہشات کی مخالفت کے بغیر اپنا دل مساجد میں معلق نہیں رکھ سکتا۔
            ایک صدقہ دہندہ اگر اپنی خواہشات پرغالب نہ ہو تو اپنا صدقہ بائیں ہاتھ سے نہیں چھپاسکتا۔
            ایک مرد اپنی خواہشات کی مخالفت کےبغیر کسی خوبصورت اور صاحب منصب عورت کے بلانے پر الله عزوجل سے ڈر کر اسے نہیںچھوڑسکتا۔ 
            ایک مسلمان اپنی خواہشات کی مخالفتکرکے ہی تنہائی میں اﷲ کو یاد کرتا ہے اور اﷲ کے خوف سے اس کی آنکھوں سے آنسو بہہنکلتے ہیں۔
            یہ سب کچھ خواہشات کی مخالفت کی بناپر ہی ہوسکتا ہے لہذا ایسے لوگوں پر قیامت کے دن کی گرمی، شدت اور پسینہ کا کوئیاثر نہ ہوگا۔ اس کے برعکس خواہش پرست انتہائی گرمی اور پسینہ میں شرابور ہوں گےاور خواہشات کے قید خانہ میں داخل ہونے کا انتظار کررہے ہوں گے۔
            الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم کواپنے نفس امارہ کی خواہشات سے اپنی پناہ میں رکھے اور ہماری خواہشات کو اپنی محبتورضا کے تابع بنادے۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے اور وہی دعائیں سنتا ہے۔
والحمدللہ رب العالمین وصلی اللہ علی نبینا وسلم